indonesia Hadist







حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ ‏" (صحیح البخاری ،کتاب الایمان) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ ‏"‏‏.‏ , (صحیح البخاری ،کتاب الایمان) حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، وَإِسْمَاعِيلَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ ‏"‏‏.‏ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ وَقَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ عَنْ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏ وَقَالَ عَبْدُ الأَعْلَى عَنْ دَاوُدَ عَنْ عَامِرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏ (صحیح البخاری ،کتاب الایمان) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقُرَشِيِّ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَىُّ الإِسْلاَمِ أَفْضَلُ قَالَ ‏ "‏ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ‏"‏‏.‏ (صحیح البخاری ،کتاب الایمان) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَجُلاً، سَأَلَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَىُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ قَالَ ‏ "‏ تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ ‏"‏‏.‏ (صحیح البخاری ،کتاب الایمان) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلاً، سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَىُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ قَالَ ‏ "‏ تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ ‏"‏‏.‏ (صحیح البخاری ،کتاب الایمان) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يُذْكَرُ اللَّهُ فِيهِ بَنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ (سنن النسائی کتاب المساجد) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَى أَبِي الْقُرْآنَ فِي السِّكَّةِ فَإِذَا قَرَأْتُ السَّجْدَةَ سَجَدَ فَقُلْتُ يَا أَبَتِ أَتَسْجُدُ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يَقُولُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَىُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ أَوَّلاً قَالَ ‏"‏ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ ‏"‏ ‏.‏ قُلْتُ ثُمَّ أَىُّ قَالَ ‏"‏ الْمَسْجِدُ الأَقْصَى ‏"‏ ‏.‏ قُلْتُ وَكَمْ بَيْنَهُمَا قَالَ ‏"‏ أَرْبَعُونَ عَامًا وَالأَرْضُ لَكَ مَسْجِدٌ فَحَيْثُمَا أَدْرَكْتَ الصَّلاَةَ فَصَلِّ ‏"‏ ‏.‏ (سنن النسائی کتاب المساجد)

16 January, 2016

islam aur RizQ E HaLaL

اسلام اور رزقِ حلال

یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی انسان کے اچھے اور برے ہونے میں ماحول اور تربیت کا بڑا اثر ہوتا ہے ۔اگر اچھی تربیت اور خوشگوار ماحول انسان پر اچھے اثرات ڈالتا ہے اور اسے معاشرے کا ایک بہترین فرد بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے
تو دوسری جانب بری تربیت اور برا ماحول اسی انسان کو معاشرے کا ایک بدکردار اور بگڑا ہوافرد بنادیتا ہے ۔دین اسلام جہاں ہمیں اچھی تربیت کرنے ،ماحول کوصاف ستھرا رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی تعلیم دیتا ہے وہیں رزق حلال کمانے اور کھانے کا درس دیتا ہے اوراپنے آپ کو خود کفیل کرنے اور اپنے بچوں کو دوسروں کی محتاجی سے بچانے کے روشن اور واضح اصول سکھاتا ہے ۔ رسول اللّٰہ  صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلمکے امتی کے لئے یہ فخر کا مقام ہے کہ اپنے ہاتھ سے رزق حلال کما کر کھائے کیونکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بقدر ضرورت رزق حلال کمانا انسان کو دین و دنیا میں سرخرو کرتا ہے۔

 اللّٰہ تعالٰی قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
اے ایمان والو! حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں کہ اللّٰہ نے تمہارے لئے حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اللّٰہ  کو ناپسند ہیں، اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللّٰہ نے روزی دی حلال پاکیزہ اور ڈرو اللّٰہ سے جس پر تمہیں ایمان ہے۔(پ7،المائدہ:87)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی رزق حلال کی اہمیت اور مالِ حرام کی مذمت بیان کی گئی ہے،  چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجئے:
٭مسلمان کے لئے فرائض یعنی نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ کے بعد رزق حلال طلب کرنا بھی فرض ہے۔(شعب الایمان ، 6/420)
٭بندہ جو حرام ما ل کمائے گااگر اُس کو صدقہ کرے گا تو وہ مقبول نہیں ہو گا اور اگر خرچ کرے گا تو اُس میں برکت نہ ہو گی اور اگر اُس کو اپنی پیٹھ کے پیچھے چھوڑ کر مر جائے گا تو وہ اُس کے لئے جہنم کا توشہ بنے گا۔(شرح السنۃللبغوی،4/205، حدیث:2023)
٭وہ گوشت جنت میں داخل نہیں ہو گا جو حرام غذا سے بنا ہو گا۔ اور ہر وہ گوشت جو حرام غذا سے بنا ہو جہنم اس کا زیادہ حق دار ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/131،حدیث:2772)
٭وہ بدن جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کو حرام سے غذا دی گئی ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح،2/134،حدیث:2787)

 ہر مسلمان کویہ عزم کرنا چاہیے کہ ہمیشہ مال حلال ہی کمانا ہے اور لقمۂ حرام کے سائے سے بھی دور رہنا ہے۔اس موقع پر شیطان کا ایک وسوسہ یہ بھی ہوتا ہے کہ’’ مالِ حلال کمانے کے ذرائع کمیاب ہیں خصوصاً دور حاضر میں شریعت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حلال کمائی کا ذریعہ اختیار کرنا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ‘‘وہ مسلمان بھائی جو اس طرح کے وسوسوں کا شکار ہیں یا رزقِ حلال کے جائز ذرائع اپنا نے میں شرم محسوس کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ انبیاء کرامعلیھم السلام و بزرگان دین رحمۃ اللّٰہ علیہم اجمعین کے ذرائع آمدنی پر غور وفکر کریں ان شاء اللہ عزوجل تمام وسوسے دور ہوجائیں گے اور کسب معاش کی خاطر جائز ذریعہ اختیار کرنے میں کو ئی عار بھی محسوس نہ ہو گی چنانچہ  حضرت داؤد علیہ السلامکے متعلق ملتا ہے کہ آپ علیہ السلام رزق حلال کے لیے بکریاں چرایا کرتے تھے  پھر جب اللّٰہ تعالٰی نے آپ کو بادشاہ بنادیاتو آپ علیہ السلام اپنے ہاتھ سے زرہ یعنی جنگوں میں پہننے والا لوہے کا لباس بنا کر رزق حلال کمایا کرتے تھے ،  اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے کھیتی کی ، لباس تیا ر کر نایعنی درزی کا کام حضرت ادریسعلیہ السلام کی سنت، بکریوں کا کاروبار کرنا حضرت شعیب علیہ السلامکی سنت، حضرت نوح علیہ السلام نے لکڑی تراش کر کشتی بنائی جو بڑھئی کا پیشہ ہے ،حضرت ابراہیمعلیہ السلام  کھیتی باڑی کیا کرتے تھے، حضرت زکریاعلیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے ، حضرت شیثعلیہ السلامخود کپڑا بنا کر فروخت کرتے تھے ، حضرت اسماعیل علیہ السلامتیر بناتے تھے، حضرت صالح علیہ السلامتھیلیوں کی تجا رت کر تے تھے، حضرت لقمان حکیم رضی اللّٰہ عنہ رسی بُن کر اسے بازار میں فروخت کرتے تھے اور حضرت یحیی علیہ السلام جو تے سیتے اور ان کی تجارت کرتے تھے جبکہ اعلان نبوت سے قبل حضور سید الانبیاء محمد مصطفی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم بھی تجارت کرتے تھے۔

 انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی کام کاج کرنے میں شرم و عار محسوس نہ کرتے تھے ۔ کسی صحابی نے زراعت کو ترجیح دی توکسی کے روزگار کا دارومدار تجارت پر تھا تو کسی نے کوئی ہنر سیکھ کر اسے ذریعہ معاش بنایا ہوا تھا ۔ (جنتی زیور، ص: 547ملخصاً وغیرہ )

صحابہ کرام علیہم الرضواننے بھی مختلف پیشے اختیارفرمائے ،حضرت ابو بکر صدیق، حضرت طلحہ، حضرت سوید بن قیس رضی اللّٰہ عنہم  زیا دہ تر کپڑا فروخت کرنے کاکام کرتے تھے، حضرت عثمان غنیرضی اللّٰہ عنہ کپڑے اور کھجوروں کی تجارت کر تے تھے، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہروغنیات کے ساتھ ساتھ کپڑے کی تجا رت اعلی پیمانہ پر کرتے تھے،حضرت عبداللّٰہ بن عمر، عبد اللّٰہ بن زبیررضی اللّٰہ عنہما اشیائے خورد و نوش کا کام کیا کرتے تھے ، حضرت خباب رضی اللّٰہ عنہ لوہارکا، حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللّٰہ عنہ درزی کا، حضرت ابو سفیانرضی اللّٰہ عنہ تیل اور چمڑے کا،حضرت حاطب بن ابی رضی اللّٰہ عنہ کھانے پکانے یعنی کیٹرنگ کا کام کرتے تھے مدینہ طیبہ میں آپ کا ہو ٹل بھی تھا ، حضرت زید بن ارقم اور حضرت براء رضی اللّٰہ عنہما سونارکا پیشہ اپنائے ہوئے تھے تو حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبداللّٰہ  بن عمر بن عاص، حضرت عبداللّٰہ  بن مسعود اور حضرت علی علیہم الرضوان کاشت کا رتھے ، حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ چٹائیاں بنایا کرتے تھے جبکہ بعض صحابہ کرامعلیہم الرضوانچمڑہ سازی اور سامان اٹھانے کاکام کرکے رزقِ حلال کمایاکرتے تھے۔

آج کے بیروزگار حضرات جو گھر میں بیٹھ کر من پسند نوکری ملنے کا انتظار کرتے ہیں یااپنے ہی ملک یا بیرونِ ملک میں جاکر جلد سے جلد امیر کبیر بننے کے سنہرے خواب دیکھتے ہیں اور ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ انبیاءعلیھم الصلٰوۃ والسلام  ا ور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی پاکیزہ سیرتوں سے اندازِزندگی سیکھیں اورناجائز ذرائع اختیار کرنے کے بجائے جو بھی جائز کام اور حلال روزگار میسر آئے اسے بخوشی اختیار کریں اور اس میں کسی قسم کی عار یا  شرم محسوس نہ کریں اور اپنا یہ ذہن بنائیں کہ

رزقِ حلال طلب کرنے کے لئے کوئی جائز پیشہ اختیار کرنا انبیاء و مرسلین اور صالحین کا مقدس طریقہ ہے۔

حضرت سیدنا خلد بن ایوب  رحمۃ اللّٰہ علیہ   فرماتے ہیں:
 بنی اسرائیل کے ایک عابدنے پہاڑ کی چوٹی پر ساٹھ سال تک اللّٰہ تعالٰیکی عبادت کی۔ایک رات اس نے خواب دیکھاکہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے:
 فلاں موچی تجھ سے زیادہ عبادت گزار ہے اور اس کا مرتبہ تجھ سے زیادہ ہے۔جب وہ عابد نیند سے بیدار ہو ا تو خواب کے بارے میں سوچا، پھرخود ہی کہنے لگا:یہ تو محض خواب ہے، اس کا کیا اعتبار۔لہٰذا اس نے خواب کی طرف توجہ نہ دی، کچھ عرصہ بعد اسے پھر اسی طرح خواب میں کہا گیا کہ فلاں موچی تجھ سے افضل ہے ۔مگراب کی بار بھی اس نے خواب کی طرف کوئی تو جہ نہ دی ،تیسری مرتبہ پھر اسے خواب میں اسی طرح کہا گیا۔باربار خواب میں جب اسے موچی کی فضیلت کے بارے میں بتایا گیا تو وہ پہاڑ سے اتر ا اور اس موچی کے پاس پہنچا۔موچی نے جب اسے دیکھا تو اپنا کام چھوڑ کر تعظیماً کھڑا ہوگیا اور بڑی عقیدت سے اس عابد کی دست بوسی کرنے لگا، پھرعرض گزار ہوا:حضور!آپ کو کس چیز نے عبادت خانے سے نکلنے پرمجبور کیا ہے؟وہ عابد کہنے لگا:میں تیری وجہ سے یہاں آیا ہوں، مجھے بتایاگیا ہے کہ اللّٰہ تعالٰیکی بارگاہ میں تیرا رتبہ مجھ سے زیادہ ہے۔ اس وجہ سے میں تیری زیارت کرنے آیا ہوں، مجھے بتاکہ وہ کونسا عمل ہے جس کی وجہ سے تجھےاللّٰہ تعالٰیکی بارگاہ میں اعلیٰ مقام حاصل ہے؟ وہ موچی خاموش رہا، گویا وہ اپنے عمل کے بارے میں بتانے سے ہچکچاہٹ محسوس کر رہا تھا۔ پھر کہنے لگا:
 میرا اورتو کوئی خاص عمل نہیں، ہاں! اتنا ضرور ہے کہ میں سارا دن رزقِ حلال کمانے میں مشغول رہتا ہوں اور حرام مال سے بچتا ہوں پھراللّٰہ تعالٰی مجھے سارے دن میں جتنا رزق عطا فرماتا ہے میں اس میں سے آدھا اس کی راہ میں صدقہ کردیتا ہوں اور آدھا اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتا ہوں ۔دوسرا عمل یہ ہے کہ میں کثرت سے روزے رکھتا ہوں، اس کے علاوہ کوئی اور چیز میرے اندرایسی نہیں جوباعثِ فضیلت ہو۔(عیون الحکایات ، مترجم ، 1/166)

اللّٰہ تعالٰی ہمیں رزقِ حلال کمانے ،کھانے اور اپنی راہ میں کچھ نہ کچھ صدقہ و 

خیرات کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم 


posts