اُحد پہاڑ
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
''میرے چچا حضرت سیدنا انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ بد ر میں نہ جاسکے ، جب
ان سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے ا فسوس کرتے ہوئے فرمایا :'' غزوہ بد ر جو کہ
مسلمانوں اور
کفار کے درمیان پہلی جنگ تھی میں اس میں حاضر نہ ہوسکا ۔ اگراب اللہ ربُّ
العزَّت نے مجھے کسی غزوہ میں شرکت کاموقع دیا تو تُودیکھے گا میں کس بہادری سے لڑتا
ہوں، پھر جب غزوي اُحد کا موقع آیا توکچھ لوگ بھاگنے لگے ،میرے چچا حضرت سیدنا
انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:''اے میرے پر و ر دگار عزوجل!ان
بھاگنے والوں میں جومسلمان ہیں، میں ان کی طرف سے معذرت خواہ ہوں
اور جو
مشرک ہیں، میں ان سے بری ہوں۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر
میدان کارْ
زَار کی طر ف دیوانہ وار بڑھے۔ راستے میں حضرت سیدنا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سے ملاقات ہوئی تو فرمایا:''اے سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کہا ں جاتے ہو ؟ اس پاک
پرورد گار عزوجل کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں اُحد پہاڑ
کے قریب جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں (پھر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے) واہ
جنت کی ہوا کیسی عمدہ،خوشگواراور پاکیزہ ہے۔ باربار یہی کلمات دہراتے
رہے(اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے)
حضرت سیدناسعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
''جیسا کارنامہ انہوں نے سرانجام دیا ہم ایسا نہیں کر سکتے ،جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کی نعش مبارک کو ڈھونڈا گیا تو ہم نے اسے شہیدوں میں پایا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم مبارک پر تیروں ،تلواروں اور نیزوں کے ا سّی(80)سے زائد زخم تھے، اور
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اعضاء جگہ جگہ سے کاٹ دیئے گئے تھے ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پہچاننابہت مشکل ہوچکاتھا۔پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیرہ نے آپ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواُنگلیوں کے نشانات سے پہچانا، حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' ہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودیکھ کر یہ آیت پڑھ رہے تھے:
مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَیۡہِ ۚ
ترجمہ کنزالایمان :مسلمانوں میں کچھ وہ مرد ہیں جنہوں نے سچاکردیاجوعہد
اللہ سے کیاتھا ۔( پ21،الاحزاب: 23)
(صحیح البخاری، کتاب الجھاد، باب قول اﷲ:مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۲۸۰۵،ص۲۲۶)
(السنن الکبری للبیھقی،کتاب السیر، باب من تبرع بالتعرض للقتل.....الخ، الحدیث۱۷۹۱۷،ج۹،ص۷