شيخ عبدالقادر جيلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بچپن ہی میں راہِ خدا عزوجل کے مسافربن گئے :۔
شیخ محمد بن قائدا لأوانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ “حضرت محبوب سبحانی غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہم سے فرمایا کہ “حج کے دن بچپن میں مجھے ایک مرتبہ جنگل کی طرف جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا کہ اس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا:’’ يَاعَبْدَالْقَادِرِمَا لِهٰذَا خُلِقْتَیعنی اے عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ! تم کو
اس قسم کے کاموں کے لئے تو پیدا نہیں کیا گیا۔” میں گھبرا کر گھر لوٹا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میدان عرفات میں لوگ کھڑے ہیں، اس کے بعد میں نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: “آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے راہ ِخدا عزوجل میں وقف فرما دیں اور مجھے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تا کہ میں وہاں جاکر علم دین حاصل کروں۔”
والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا نے مجھ سے اس کا سبب دریافت کیا میں نے بیل والا واقعہ عرض کردیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ ۸۰ دینار جو میرے والد ماجد کی وراثت تھے میرے پاس لے آئیں تو میں نے ان میں سے ۴۰ دینار لے لئے اور ۴۰ دینار اپنے بھائی سید ابو احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے چھوڑ دیئے، والدہ ماجدہ نے میرے چالیس دینار میری گدڑی میں سی دیئے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرما دی۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا نے مجھے ہر حال میں راست گوئی اور سچائی کو اپنانے کی تاکید فرمائی اور جیلان کے باہر تک مجھے الوداع کہنے کے لئے تشریف لائیں اور فرمایا: “اے میرے پیارے بیٹے! میں تجھے اللہ عزوجل کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنے پاس سے جدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا منہ قیامت کو ہی دیکھنا نصیب ہوگا۔”(بهجة الاسرار، ذکر طريقه رحمة الله تعاليٰ عليه، ص۱۶۷)