indonesia Hadist







حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ ‏" (صحیح البخاری ،کتاب الایمان) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ ‏"‏‏.‏ , (صحیح البخاری ،کتاب الایمان) حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، وَإِسْمَاعِيلَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ـ رضى الله عنهما ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ ‏"‏‏.‏ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ وَقَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ عَنْ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏ وَقَالَ عَبْدُ الأَعْلَى عَنْ دَاوُدَ عَنْ عَامِرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.‏ (صحیح البخاری ،کتاب الایمان) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقُرَشِيِّ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى ـ رضى الله عنه ـ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَىُّ الإِسْلاَمِ أَفْضَلُ قَالَ ‏ "‏ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ‏"‏‏.‏ (صحیح البخاری ،کتاب الایمان) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ـ رضى الله عنهما ـ أَنَّ رَجُلاً، سَأَلَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَىُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ قَالَ ‏ "‏ تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ ‏"‏‏.‏ (صحیح البخاری ،کتاب الایمان) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلاً، سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَىُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ قَالَ ‏ "‏ تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ ‏"‏‏.‏ (صحیح البخاری ،کتاب الایمان) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يُذْكَرُ اللَّهُ فِيهِ بَنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ (سنن النسائی کتاب المساجد) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَى أَبِي الْقُرْآنَ فِي السِّكَّةِ فَإِذَا قَرَأْتُ السَّجْدَةَ سَجَدَ فَقُلْتُ يَا أَبَتِ أَتَسْجُدُ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يَقُولُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَىُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ أَوَّلاً قَالَ ‏"‏ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ ‏"‏ ‏.‏ قُلْتُ ثُمَّ أَىُّ قَالَ ‏"‏ الْمَسْجِدُ الأَقْصَى ‏"‏ ‏.‏ قُلْتُ وَكَمْ بَيْنَهُمَا قَالَ ‏"‏ أَرْبَعُونَ عَامًا وَالأَرْضُ لَكَ مَسْجِدٌ فَحَيْثُمَا أَدْرَكْتَ الصَّلاَةَ فَصَلِّ ‏"‏ ‏.‏ (سنن النسائی کتاب المساجد)

11 December, 2015

سلام کی سنتیں اور اداب

    سلام کی سنتیں اور اداب

 سلا م کر نا ہمارے پیا ر ے آقا،تا جدا ر مد ینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی
بہت ہی پیار ی سنت ہے (بہارِ شریعت ،حصہ ۱۶،ص۸۸) ، بدقسمتی سے آ ج کل یہ 

سنت بھی ختم ہو تی نظر آرہی ہے ۔اسلامی بھائی جب آپس میں ملتے ہیں
تو اَلسَّلَا مُ

عَلَیْکُمْ سے ابتدا کرنے کے بجائے ''آداب عرض'' کیا حال ہے ؟'' مزاج شریف ''



صبح بخیر''،'' شام بخیر ''وغیرہ وغیرہ عجیب وغریب کلمات سے ابتداء کرتے ہیں، 

یہ خلافِ سنت ہے ۔ رخصت ہوتے وقت بھی ''خدا حافظ''''گڈبائی''''ٹاٹا''وغیرہ کہنے 
کے بجائے سلام کرنا چاہے۔ ہاں رخصت ہوتے ہوئے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے بعد اگر خدا 
حافظ کہہ دیں تو حرج نہیں ۔سلام کی چند سنّتیں اور آداب ملاحظہ ہوں:


    (۱)سلام کے بہترین الفاظ یہ ہیں ''اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ  یعنی تم پر 


سلامتی ہواور اللہ عزوجل کی طر ف سے رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ۔


( ماخوذ از فتاویٰ رضویہ،ج۲۲،۴۰۹)


    (۲) سلام کرنے والے کو اس سے بہتر جواب دینا چاہے ۔اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:



    (۴)سلام کرنا حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی بھی سنت ہے ۔

 (مراٰۃ المناجیح 
،ج۶،ص۳۱۳)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے

 کہ حضور سید دوعالم صلی
 اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: '' جب اللہ عزوجل نے حضرت سیدنا آدم علی 

نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو پیدا فرمایا تو انہیں حکم دیا کہ جاؤ او رفرشتو ں کی 


اس بیٹھی ہوئی جماعت کو سلام کرو۔ اور غور سے سنو! کہ وہ تمہیں کیا جواب 


دیتے ہیں ۔ کیونکہ وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہے ۔حضرت سیدنا آدم علیہ 
السلام نے فرشتو ں سے کہا : اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ تو انہوں نے جواب دیا ، ''اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ 


وَرَحْمَۃُ اللہِ''  اور انہوں نے '' وَرَحْمَۃُ اللہِ '' کے الفاظ زائد کہے ۔'' ( صحیح البخاری ،کتاب الاستئذان ،باب بدء السلام،الحدیث۶۲۲۷،ج۴،ص۱۶۴)
    (۵)عام طو ر پرمعروف یہی ہے کہ '' اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ''  ہی سلام ہے ۔مگر سلام 


کے دو سرے بھی بعض صیغے ہیں ۔ مثلاً کوئی آکر صرف کہے ''سلام'' تو بھی 


سلام ہوجاتا ہے او ر'' سلام'' کے جواب میں،''سلام '' کہہ دیا ، یا ،  اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ''  ہی 
کہہ دیا ،یا صرف ''وَعَلَیْکُمْ ''  کہہ دیا تو بھی جواب ہوگیا۔'' 


 (ماخوذازبہارِ شریعت،حصہ۱۶،ص۹۳)


    (۶) سلام کرنے سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ 
تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ، کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :'' تم 

جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک تم ایمان نہ لاؤ اور تم مومن نہیں ہوسکتے جب
 تک کہ تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ۔کیا میں تم کو ایک ایسی چیز نہ بتاؤں 


جس پر تم عمل کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو۔ اپنے درمیان سلا م کو عام کرو ۔''
(سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ،باب فی افشاء السلام،الحدیث ۵۱۹۳،ج۴،ص۴۴۸)


    (۷)ہرمسلمان کو سلام کرنا چاہے خواہ ہم اسے جانتے ہو ں یا نہ جانتے ہوں ۔حضرت عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضور تا جدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے عرض کیا ، اسلام کی کون سی چیز سب سے بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :یہ کہ تم کھانا کھلاؤ (مسکینوں کو ) اور سلام کہو ہر شخص کو خواہ تم اس کو جانتے ہو یا نہیں ۔
(صحیح البخاری ،کتاب الاستئذان،باب السلام للمعرفۃ وغیر المعرفۃ،الحدیث۶۲۳۶،ج۴،ص۱۶۸)


    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہوسکے تو جب بس میں سوار ہوں ، کسی اسپتال 


میں جانا پڑجائے ،کسی ہوٹل میں داخل ہوں جہاں لوگ فارغ بیٹھے ہوں ، جہاں جہاں
 مسلمان اکٹھے ہوں ، سلام کردیا کریں ۔ یہ دو الفاظ زبان پر بہت ہی ہلکے ہیں ،


 مگر ان کے فوائد وثمرات بہت ہی زیادہ ہیں ۔
    (۸) بعض صحابہ علیہم الرضوان صرف سلام کی غرض سے بازار میں جایا 
کرتے تھے۔ حضرت طفیل بن ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے 
کہ وہ عبداللہ بن عمر رضی

اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس جاتے تو وہ ان کو ساتھ لے کر بازار کی طر ف چل پڑتے ۔ 
راوی کہتے ہیں جب ہم چل پڑتے تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس ردی 

فروش ،دکاندار یا مسکین کے پاس سے گزرتے تو اس کو سلام کہتے۔ حضرت طفیل 

رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، ایک دن میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
 پاس گیا تو انہوں نے مجھے بازار چلنے کو کہا ۔ میں نے عرض کیا ، بازار جاکر 
کیاکریں گے ؟ وہاں آپ نہ تو خریداری کے لئے رُکتے ہیں ، نہ سامان کے متعلق 


پوچھتے ہیں ، نہ بھاؤ کرتے ہیں اور نہ بازار کی مجلس میں بیٹھتے ہیں، میری تو 


گزارش یہ ہے کہ یہیں ہمارے پاس تشریف رکھیں ۔ہم باتیں کریں گے ۔ فرمایا:'' اے 
بڑے پیٹ والے ! (سیدناطفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیٹ بڑا تھا) ہم صرف سلام کی 
غر ض سے جاتے ہیں ۔ ہم جس سے ملتے ہیں اس کو سلام کہتے ہیں۔''
(ریاض الصالحین،کتاب السلام ،باب فضل السلام والامربافشاء ہ،الحدیث۸۵۰،ص۲۴۹)
    (۹)بات چیت شروع کرنے سے پہلے ہی سلام کرنے کی عادت بنانی چاہیے ۔نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ''اَلسَّلَامُ قَبْلَ الْکَلَامِ یعنی سلام بات چیت سے پہلے ہے۔''
(جامع الترمذی،کتاب الاستئذان...الخ،باب ماجاء فی السلام...الخ،ج۴،ص۳۲۱)


    (۱۰)چھوٹا بڑے کو ، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو ، تھوڑے زیادہ کو اور سوار 


پیدل کوسلام کرنے میں پہل کریں۔سر کارمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا 


فرمان عالیشان ہے ۔ سوار پیدل کو سلام کرے ، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو ،اور 


تھوڑ ے لوگ زیادہ کو ، اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے ۔
(صحیح مسلم،کتاب السلام،باب یسلم الراکب علی الماشی والقلیل علی الکثیر ،الحدیث۲۱۶۰،ص۱۱۹۱)

    (۱۱)پیچھے سے آنے والا آگے والے کو سلام کرے ۔

(الفتاویٰ الہندیہ،کتاب الکراہیۃ،باب السابع فی السلام وتشمیت العاطس،ج۵،ص۲۲۵)
    (۱۲) جب کوئی کسی کا سلام لائے تو اس طر ح جواب دیں '' عَلَیْکَ وَعَلَیْہِ السَّلَام 

''  یعنی تجھ پر بھی اور اس پر بھی سلام ہو۔''۔حضرت غالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ 


فرماتے ہیں کہ ہم حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے 
،ایک آدمی نے بتا یاکہ میرے والدِ ماجد نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم 
کے پاس بھیجا اور فرمایا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو میرا سلام عرض 
کر۔ اس نے کہا ، میں آپ (حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ) کی خدمت بابرکت میں 
حاضر ہوگیا اور میں نے عرض کی ، سر کار! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم میرے
 والد صاحب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو سلام عرض کرتے ہیں ۔ 
حضورسید دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: ''عَلَیْکَ وَعَلٰی اَبِیْکَ 
السَّلَام یعنی تجھ پر اور تیرے باپ پر سلام ہو ۔''
(سننِ ابی داؤد ،کتاب الادب،باب فی الرجل یقول فلان یقرئک السلام،الحدیث۵۲۳۱،ج۴،ص۴۵۸)
    (۱۳) سلام میں پہل کرنے والا اللہ عزوجل کا مقر ب ہے۔حضرت ابوامامہ صدی 
بن عجلان الباہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور تاجدار مدینہ صلی 
اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:''لوگو ں میں اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب وہی 


شخص ہے جو انہیں پہلے سلام کرے ۔'' (سننِ ابی داؤد ،کتاب الادب،باب فی فضل من بدء بالسلام،الحدیث ۵۱۹۷،ج۴،ص۴۴۹)
    حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، عرض کیا گیا ، یارسول 
اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم! دو آدمی آپس میں ملیں تو کون پہلے سلام کرے ؟ 
فرمایا:'' جوا ن میں اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو۔
(جامع الترمذی ،کتاب الاستئذان ،باب فضل الذی یبدء بالسلام،الحدیث۲۸۰۳،ج۴،ص۳۱۸)
    (۱۴) سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے بری ہے ۔حضرت عبداللہ رضی اللہ 
تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ،فرمایا :'' 
پہلے سلام کہنے والا تکبر سے بری ہے۔''
(شعب الایمان،باب فی مقاربۃ وموادۃ اہل الدین،الحدیث۸۷۸۶،ج۶،ص۴۳۳)
    (۱۵) جب گھر میں داخل ہوں تو گھر والوں کوسلام کیا کریں اس سے گھرمیں 
برکت ہوتی ہے ۔اور اگر خالی گھر میں داخل ہوں تو ''اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاا النَّبِیُّ'' کہیں 
یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم!آپ پرسلام ہو'' ۔
    حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ہرمومن کے گھرمیں 
سر کار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی روح مبارک تشریف فرمار ہتی ہے ۔
( شرح شفاء،الباب الرابع،ج۲،ص۱۱۸)
    حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ 
علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:'' اے بیٹے ! جب تم اپنے گھرمیں داخل ہوتوسلام کہو ، یہ 
تمہارے لئے اور تمہارے گھر والوں کے لئے برکت کا با عث ہوگا ۔''

(جامع الترمذی ،کتاب الاستئذان والادب ،باب ماجآء فی التسلیم اذادخل بیتہ،الحدیث۲۷۰۷،ج۴،ص۳۲۰)
    گھر میں جب داخل ہوں اس وقت بھی سلام کریں اور جب رخصت ہونے
لگیں،اس وقت بھی سلام کریں ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے
 کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:''جس وقت تم گھر میں داخل 
ہوا پنے گھر کے لوگوں کو سلام کہو ۔ جب اپنے گھر والوں سے نکلو تو سلام کے 

ساتھ رخصت ہو ۔''
(مشکٰوۃ المصابیح ،کتاب الادب،باب السلام،الفصل الثانی،الحدیث۴۶۵۱،ج۲،ص۱۶۵)
    (۱۶) آج کل اگر کوئی کسی محفل ، اجتماع یا مجلس وغیرہ میں آکر سلام کر بھی 
دیتا ہے تو جاتے ہوئے '' میں چلتا ہوں'' ''خدا حافظ''،'' اچھا'''' بائی بائی '' وغیرہ 
کلمات کہتا ہے لہذا مجلس کے اختتام پر ان سب الفاظ کے بجائے سلام کیا کریں ۔ 
چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ 
واٰلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :'' جس وقت تم میں سے کوئی کسی مجلس کی 
طرف پہنچے ،سلام کہے ۔ اگر ضرورت محسوس کرے ، وہاں بیٹھ جائے ۔ پھر جب 

کھڑا ہوسلام کہے اس لئے کہ پہلا سلام دوسرے سے زیادہ بہتر نہیں ہے ۔''
(جامع الترمذی،کتاب الاستئذان،باب ما جآء فی التسلیم عند القیام وعندالقعود،الحدیث۲۷۱۵،ج۴،ص۳۲۴)
    (۱۷)اگر کچھ لوگ جمع ہیں ایک نے آکر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ   کہا ۔ تو کسی ایک کا 
جواب دے دینا کافی ہے ۔ اگر ایک نے بھی نہ دیا تو سب گنہگار ہوں گے ۔ اگر سلام 
کرنے والے نے کسی ایک کانام لے کر سلام کیا یا کسی کو مخاطَب کر کے سلام کیا 
تو اب اسی کو جواب دینا ہوگا ۔ دوسرے کاجواب کافی نہ ہوگا۔
(ماخوذازبہار شریعت،سلام کا بیان،حصہ ۱۶،ص۸۹)
    حضرت مولا علی کَرَّمَ اللہُ وَجْھَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے '' جب کوئی شخص 
گزرتے ہوئے سلام کہہ دے اور بیٹھنے والوں میں سے ایک شخص جواب دے تو 
سب لوگوں کی طرف سے کفایت کرجاتا ہے ۔ـ''
(سننِ ابی داؤد،کتاب الادب ،باب ما جآء فی رد واحد عن الجماعۃ،الحديث۵۲۱۰،ج۴،ص ۴۵۲)
    (۱۸) اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنے سے دس نیکیاں ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم وَرَحْمَۃُ اللہْ کہنے سے 

بیس نیکیاں جبکہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَ کَاتُہ کہنے سے

تیس نیکیا ں ملتی ہیں۔ چنانچہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے 

روایت ہے کہ ایک آدمی حضورتاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی 
خدمت میں حاضر ہوا ، اور اس نے عرض کیا ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ آپ صلی اللہ تعالیٰ 
علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ، دس نیکیاں لکھی گئی ہیں۔ پھر دو سرا حاضر ہوا اس نے
 عرض کیا ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ ''۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس کو
 جواب دیا ،وہ بھی بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :بیس نیکیاں 
لکھی گئی ہیں ۔پھر ایک اور آدمی حاضر خدمت ہوا ، اس نے عرض کیا: اَلسَّلَامُ 
عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَ کَاتُہٗ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس کوجواب دیا اور
 فرمایا ، تیس نیکیاں ہیں ۔
(جامع الترمذی،کتاب الاستئذان والادب،باب ما فی فضل السلام،الحدیث۲۶۹۸،ج۴،ص۳۱۵)
    (۱۹)اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ 
الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 22 صَفْحَہ409 پر فرماتے ہیں : کم از کم السَّلامُ علیکم 
اوراس سے بہتر وَرَحمَۃُ اللہ ملانا اور سب سے بہتر وَبَرَکاتُہ، شامل کرنا اور اس پر 
زِیادَت نہیں۔ پھرسلام کرنے والے نے جتنے الفاظ میں سلام کیا ہے جواب میں اتنے 
کا اِعادہ تو ضَرور ہے اور افضل یہ ہے کہ جواب میں زیادہ کہے۔ اس نے السَّلامُ 

علیکم کہا تو یہ وعَلَیکُمُ السَّلام وَرَحمَۃُ اللہ کہے۔ اورا گر اس نے السَّلامُ علیکم وَ 
رَحمَۃُ اللہ کہا تو یہ وَعَلیکمُ السَّلامُ وَرَحمَۃُ اللہِ وَبَرَکاتُہٗ کہے اوراگر اس نے وبَرَکاتُہ، 
تک کہا تویہ بھی اتنا ہی کہے کہ اس سے زِیادَت نہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم
    (۲۰)جو سورہے ہوں ان کو سلام نہ کیا جائے بلکہ صرف جاگنے والوں کو سلام
 کریں چنانچہ حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ 
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم رات کو تشریف لاتے تو سلام کہتے ۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ 
واٰلہ وسلم سونے والوں کو نہ جگا تے اور جوجا گ رہے ہوتے ان کو آپ صلی اللہ
 تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سلام ارشاد فرماتے ۔ پس ایکدن حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ 
واٰلہ وسلم تشریف لائے اور اسی طر ح سلام فرمایا جس طر ح فرمایا کرتے تھے ۔'' 
( صحیح مسلم ،کتاب الاشربۃ،باب اکرام الضیف وفضل ایثارہ ،الحدیث۲۰۵۵،ص۱۱۳۶)
جلوہ یار ادھر بھی کوئی پھیرا تیرا! 

حسرتیں آٹھ پہر تکتی ہیں رستہ تیرا !
                        ( ذوق نعت)
    (۲۱)زبان سے سلام کرنے کے بجائے صرف انگلیوں یاہتھیلی کے اشارے سے سلام نہ کیا جائے۔ (ماخوذ از بہار شریعت ،حصہ ۱۶،ص۹۲)
    حضرت عمروبن شعیب بواسطہ والد اپنے دادارضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت 
کرتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :'' ہمارے غیر سے
 مشابہت پیدا کرنے والا ہم میں سے نہیں ، یہود ونصاریٰ کے مشابہ نہ بنو ، یہودیوں 
کا سلام انگلیوں کے اشارے سے ہے اور عیسائیوں کا سلام ہتھیليوں کے اشارے سے ۔''
(جامع الترمذی،کتاب الاستئذان،باب ماجآء فی کراہیۃ اشارۃ الید بالسلام،الحدیث۲۷۰۴،ج۴،ص۳۱۹)
     اگر کسی نے زبان سے سلام کے الفاظ کہے اور ساتھ ہی ہاتھ بھی اٹھادیا تو پھر مضایقہ نہیں۔'' (احکام شریعت،ص۶۰)
    (۲۲)سلام اتنی اونچی آواز سے کریں کہ جس کو کیا ہو وہ سن لے ۔
(بہار شریعت،سلام کا بیان،حصہ ۱۶،ص۹۰)
     (۲۳)سلام کا فوراً جواب دینا واجب ہے ۔ اگر بلا عذر تا خیر کی تو  گناہ گارہوگا
 اور صرف جواب دینے سے گناہ معاف نہیں ہوگا ، تو بہ بھی کرنا ہوگی۔ 
(ردالمحتار مع درمختار ،ج۹،ص۶۸۳)

(۲۴) جواب اتنی آواز سے دینا واجب ہے کہ سلام کرنے والا سن لے ۔
(بہارشریعت،سلام کا بیان،حصہ ۱۶،ص۹۲)
     (۲۵)غیر مسلم کوسلام نہ کریں وہ اگر سلام کرے تو اس کا جواب واجب نہیں، 
جواب میں فقط ''وَعَلَیْکُمْ''  کہہ دیں۔ (بہار شریعت،سلام کا بیان،حصہ ۱۶،ص۹۰)
    (۲۶)سلام کرتے وقت حد ر کوع تک (اتنا جھکنا کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنو ں تک 
پہنچ جائیں) جھک جاناحرام ہے اگر اس سے کم جھکے تو مکروہ ۔ (بہار 
شریعت،سلام کا بیان،حصہ ۱۶،ص۹۲)


    بدقسمتی سے آج کل عام طو ر پر سلام کرتے وقت لوگ جھک جاتے ہیں ۔ البتہ 


کسی بزرگ کے ہاتھ چومنے میں حرج نہیں بلکہ ثواب ہے اور یہ بغیر جھکے 
ممکن نہیں یہاں ضرورت ہے ۔ جبکہ سلام کے وقت جھکنے کی حاجت نہیں ۔ 
    (۲۷)بُڑھیا کاجواب آواز سے دیں اور جوان عورت کے سلام کا جواب اتنا آہستہ 
دیں کہ وہ نہ سنے ۔ البتہ اتنی آواز لازمی ہے کہ جواب دینے والاخود سن لے ۔
(بہار شریعت،سلام کا بیان،حصہ ۱۶،ص۹۰)
    (۲۸)جب دو اسلامی بھائی ملاقات کریں توسلام کریں اوراگر دونوں کے بیچ میں
 کوئی ستون ،کو ئی درخت یا دیوار وغیرہ درمیان میں حائل ہوجائے پھر جیسے ہی 
ملیں دوبارہ سلام کریں ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرو ی ہے کہ 
حضور تا جدارمدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :''جب تم میں سے کوئی 
شخص اپنے اسلامی بھائی کو ملے تو اس کو سلام کرے اور اگر ان کے درمیان 
درخت دیوار یا پتھر وغیرہ حائل ہوجائے اوروہ پھر اس سے ملے تو دوبارہ اس کو سلام کرے ۔''
(سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ،باب فی الرجل یفارق الرجل....الخ،الحدیث ۵۲۰۰،ج۴،ص۴۵۰)


     (۲۹)خط میں سلام لکھا ہوتا ہے اس کا بھی جواب دینا واجب ہے اس کی دو 
صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ زبان سے جواب دے اوردوسرا یہ کہ سلام کا جواب لکھ 

کر بھیج دے لیکن چونکہ جوابِ سلام فوراً دینا واجب ہے اور خط کا جواب دینے 
میں کچھ نہ کچھ تاخیر ہوہی جاتی ہے لہٰذا فوراً زبان سے سلام کا جواب دے دے ۔


اعلیٰ حضرت قدس سرہ جب خط پڑھا کرتے تو خط میں جو ''السلام علیکم '' لکھا 


ہوتا،اس کا جواب زبان سے دے کر بعد کا مضمون پڑھتے ۔ (ماخوذ ازبہار 

شریعت،حصہ ۱۶ ،ص۹۲)

    (۳۰)اگر کسی نے آپ کو کہا ،'' فلا ں کو میرا سلام کہنا '' تو آپ خود اسی وقت 


جواب نہ دے دیں ۔ آپ کا جواب دینا کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ جس کے بارے میں 


کہا ہے اس سے کہیں کہ فلاں نے آپ کو سلام کہا ہے ۔


     (۳۱)اگر کسی نے آپ سے کہا کہ فلاں نے آپ کو سلام کہا ہے ۔


اگر سلام لانے والا اوربھیجنے والا دو نوں مردہوں تو یوں کہیں : عَلَیْکَ وَ عَلَیْہِ السَّلَام اگر دونوں عورتیں ہوں تو کہیں عَلَیْکِ وَ عَلَیْہَا السَّلَام


اگر پہنچانے والا مرد اور بھیجنے والی عورت ہو عَلَیْکَ وَ عَلَیْہَا السَّلَام


اگر پہنچا نے والی عورت ہو اور بھیجنے والا مرد ہو عَلَیْکِ وَ عَلَیْہِ السَّلَام ۔


(ان سب کا ترجمہ یہی ہے '' تجھ پر بھی سلام ہو او ر اس پر بھی'')


    (۳۲)جب آپ مسجد میں داخل ہوں اور اسلامی بھائی تلاوتِ قرآن، ذکرودرود میں 

مشغول ہوں یاا نتظارِ نماز میں بیٹھے ہوں ان کو سلام نہ کریں ۔ یہ سلام کا موقع 

نہیں نہ ان پر جواب واجب ہے ۔ (الفتاویٰ الہندیہ ،کتاب الکراہیۃ،باب السابع فی السلام وتشمیت العاطس،ج۵،ص۲۲۵)


     امامِ اہلِسنّت ، مجددِ دین وملت الشاہ مولانا احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن 


فتاویٰ رضویہ جلد 23صفحہ 399 پر لکھتے ہیں :ذاکر پر سلام کرنا مطلقًا منع ہے 

اور اگر کوئی
کرے تو ذاکر کواختیار ہے کہ جواب دے یا نہ دے۔ ہاں اگر کسی کے سلام یا جائز 
کلام کا جواب نہ دینا اس کی دل شکنی کا موجب(یعنی سبب) ہو تو جواب دے کہ 
مسلمان کی دلداری وظیفہ میں بات نہ کرنے سے اہم واعظم ہے۔
    (۳۳) کوئی اسلامی بھائی در س وتدریس یا علمی گفتگویا سبق کی تکرار میں 

ہے 
ان کو سلام نہ کریں ۔
 (بہار شریعت،سلام کا بیان،حصہ ۱۶،ص۹۱)

    (۳۴)اجتماع میں بیان ہو رہا ہو،اسلامی بھائی سن رہے ہیں آنے والاسلام نہ کرے۔
    (۳۵)جوپیشاب، پاخانہ کر رہاہے ،یاپیشاب کرنے کے بعد ڈھیلا لئے جائے پیشاب

 سکھانے کے لئے ٹہل رہا ہے ،غسل خانے میں برہنہ نہا رہا ہے ، گانا گار ہا ہے ، 
کبوتراڑارہا ہے یاکھانا کھارہا ہے ان سب کو سلام نہ کریں۔
(بہار شریعت،سلام کا بیان،حصہ ۱۶،ص۹۱)


    (۳۶) جن صورتوں میں سلام کرنا منع ہے اگر کسی نے کر بھی دیاتو ان پر 

جواب واجب نہیں ۔ (بہار شریعت،سلام کا بیان،حصہ ۱۶،ص۹۱)

    (۳۷)کھانا کھانے والے کو سلام کردیا تو منہ میں اس وقت لقمہ نہیں توجواب دے دے ۔

(۳۸)سائل(بھکاری) کے سلام کاجواب واجب نہیں ( جبکہ بھیک مانگنے کی
 غر ض سے آیا ہو)۔
(بہار شریعت،سلام کا بیان،حصہ ۱۶،ص۹۰
اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل ہمیں سلام کی بر کتو ں سے مالا مال فرما ۔


    اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم


posts